گزشتہ دنوں بٹکوئین کی مائننگ اور اس سے جڑے ماحولیاتی آلودگی کے خدشات پر لکھے گئے میرے بلاگز پر اچھا فیڈ بیک ملا تو سوچا کیوں نہ قارئين کو یہ بھی بتایا جاۓ کہ پاکستان اور دیگر ملک كرپٹو کرنسی مثلاً بٹکوئین وغیرہ کو کیوں لیگل ٹینڈر کے طور پر قبول نہیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں افریقہ کے ایک ملک ایلسلواڈور نے كرپٹو کرنسیز کو لیگل ٹینڈر کے طور پر رائج کیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی سندھ ہائیکورٹ میں ایک شہری کی اپیل زیر سماعت ہے جس کی ابھی تک کی کاروائی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب صدر لیول کے نمائندہ نے معزز عدالت کو بتایا ہے کہ انہوں نے ایف آئی اے یا کسی اور تحقیقاتی ایجنسی کو باقاعدہ طور پر نہیں کہا کہ كرپٹو کرنسیز کا لین دین کرنے والوں کو کوئی سزا دی جاۓ یا گرفتار کیا جاۓ۔ جس سے معزز عدالت نے یہی اخذ کیا ہے کہ ہمارا مرکزی بینک اسکو کوئی قابل سزا جرم نہیں سمجھتا ہے۔ مگر کیس کا حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ پاکستان میں بھی ڈیجیٹل کرنسیز کا لین دین تو انٹرنیٹ کے توسط سے کر رہے ہیں، مگر فیس بک یا دیگر ویب سائٹس سے مجھے ایسے شواہد نہیں ملے کہ پاکستان کے نوجوان ڈیجیٹل کرنسیز مثلاً بٹکوئین یا ایتھريم کی ‘مائننگ’ کر رہے ہوں۔ اس تناظر میں کمپیوٹر سائنس سے وابستہ دوستوں سے رہنمائی درکار ہے۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ “منی لانڈرنگ” سے کیا مراد ہے اور كرپٹوکرنسیز کسطرح منی لانڈرنگ میں اضافہ کر کے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے منی لانڈرنگ کی اسطلاح کا اسقدر استعمال کیا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں ہر کوئی اب اس اسطلاح سے شناسا ہے۔
منی لانڈرنگ سے مراد ہے کہ ناجائز ذرائع سے کمائی گئی بلیک منی یا دولت کی “دھلائی” کچھ مخصوص طریقوں سے ایسے کی جاۓ کہ یہ وائٹ، کلین یا جائز محسوس ہو اور پھر کسی قانونی کاروبار میں استعمال کی جاسکے اور کسی کو شک یا سزا نہ ہونے پاۓ۔ اسی طرح “ریورس منی لانڈرنگ” یہ ہے کہ جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کا استعمال ناجائز کاروائیوں مثلاً دہشت گردی وغیرہ کے لئے کیا جاۓ۔ جرائم پیشہ افراد بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جن سے انکی ناجائز کمائی یا دولت قانونی اور ‘کلین’ لگے۔ مثال کے طور پر انعامی بانڈز یا ایسے کاروباری ذارئع جہاں اصل میں اتنی آمدنی نہ ہو جتنی ظاہر کی جا سکے۔ جیسا کہ شوبز اور پراپرٹی کے کاموں میں زیادہ کمائی ظاہر کر کے دولت پہلے بینکوں میں اور پھر بیرون ملک منتقل کر دی جاتی ہے۔ منی لانڈرنگ اور “ریورس منی لانڈرنگ” سے نبردآزما ہونے کے لیے ملکی اور گلوبل سطح پر بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے والا ادارہ “فیٹف” بھی اسی سلسے کی ایک کڑی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا میں گلوبل جی ڈی پی کے تقریباً 2 سے 5 فیصد تک منی لانڈرنگ ہوتی ہے، جسکا تخمینہ تقریباً 800 بلين ڈالرز سے 2 ٹریلین ڈالرز تک جا بنتا ہے۔ البتہ یہ اندازہ ابھی نہیں لگایا جا سکا کہ اس میں سے کتنی منی لانڈرنگ صرف كرپٹو کرنسیز کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس تناظر میں انٹرنیٹ پر مختلف رپورٹس گردش میں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں دنیا میں ایک بلين ڈالرز، 2019 میں 2.8 بلين ڈالرز اور 2020 کے پہلے پانچ ماہ میں تقریباً 1.36بلين ڈالرز کی منی لانڈرنگ كرپٹو کرنسیز کے ذریعے ہوئی ہے۔
بنیادی طور پر ڈیجیٹل اور كرپٹو کرنسی کے ذریعے اشیا و خدمات کا لین دین میں اضافہ جہاں کیش کی موت کا باعث بن رہا ہے وہیں اسکا استعمال منی لانڈرنگ کے امكانات میں اضافہ کی ایک وجہ بھی ہے۔ خاص طور پر کچھ كرپٹو کرنسیز جیسے زیڈ کیش اور مونیرو وغیرہ میں ایسی خصوصیات ہیں کہ لین دین کرنے والے کی شناخت مکمل طور پر پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ باقی كرپٹو کرنسیز جیسے بٹکوئین وغیرہ کا نظام بھی اتنا سادہ نہیں کہ لین دین میں منی لانڈرنگ کا امكان رد کیا جا سکے۔ ماضی میں ایسے شواہد سامنے آ چکے ہیں جن میں جرائم پیشہ افراد نے اغوا برائے تاوان، منشیات کی سمگلنگ اور سائبر کرائم کے بعد بٹکوائن کی کافی مقدار وصول کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین کو مستحکم کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان میں بھی جہاں ضروری ہے کہ منی لانڈرنگ کے خلاف سخت سزائیں متعارف کروائی جائيں وہیں ڈیجیٹل کرنسیز مثلاً بٹکوئین وغیرہ کے لین دین کے لئے بھی ضابطہ اخلاق جلد مرتب کیا جاۓ اور قومی سطح پر مشتہر کر کے نوجوان نسل کو کنفیوژن سے نجات دلائی جاۓ۔