کچھ روز پہلے میں نے کالم لکھا کہ کس طرح بٹکوئین کی ‘مائننگ’ ماحول کی آلودگی کا باعث بنتی ہے تو ملنے والے فیڈبیک سے احساس ہوا کہ پاکستان میں بیشتر لوگوں کو ورچوئل یا ڈیجیٹل کرنسیز جیسا کہ بٹکوئین یا ایتھرنیم کے بارے میں بنیادی معلومات نہیں ہیں، کہ یہ کیا ہیں اور انکی ‘مائننگ’ کیسے ہوتی ہے؟ اگرچہ ان موضوعات پر یوٹیوب اور فيس بک پر کافی ویڈیوز اور مواد موجود ہے مگر میں نے چاہا کہ سادہ الفاظ میں ایسے بتانے کی کوشش کروں کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کو بھی سمجھ آجاۓ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے کچھ روز سے بٹکوئین کی قدر میں تیزی سے کمی آرہی ہے، مگر جیسا کہ اس کرنسی کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اسکی قدر میں اتار چڑھاؤ بہت زیادہ آتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ جب تک یہ تحریر شائع ہو تو اسکی قدر میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہو۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ابھی كرپٹو کرنسی اور اس کا لین دین کرنے پر ناصرف مکمل پابندی ہے بلکہ یہ ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔
بنیادی طور پر بٹکوئین عام زر جیسے سکوں کی طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسکا کوئی وزن یا حجم ہے بلکہ ہر بٹکوئین کمپیوٹر کی ایک ‘فائل’ ہوتا ہے جو سمارٹ فون یا کمپیوٹر کی ایک ایپ ‘ڈیجیٹل والیٹ’ میں سٹور ہوتا ہے، اور ہم اس ایپ سے ایک بٹکوئین یا اسکا کوئی حصہ کسی کو یا کوئی ہمیں انٹرنیٹ کی مدد سے باآسانی بھیج سکتا ہے۔ اس آنلائن خریدو فروخت کے لئے بہت سی ایپس جیسے ‘بینانس’ وغیرہ مئوثر طور پر کام کر رہی ہیں۔ یہ خریدو فروخت یا ٹرانزیکشنز ان تمام لوگوں کے علم میں فوراً آ جاتی ہیں جو بٹکوئین کی’مائننگ’ یا لین دین سے جڑے ہوتے ہیں، اسے ‘بلاک چین’ کہا جاتا ہے۔ یہ’بلاک چین’ اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی شخص جعلی یا نقلی بٹکوئین بنا کر لین دین نہ کر پاۓ اور ناہی اس کاروبار میں کوئی پرابلم پیدا کر سکے۔ بلکہ بٹکوئین کی خریدو فروخت سب لوگ بيک وقت آنلائن دیکھ یا مانیٹر کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس نظام کو کسی مرکزی بینک یا ادارے کی کوئی گارنٹی حاصل نہیں ہے۔
کمپیوٹر سائنس کے طالب علم جانتے ہیں کہ فائلز کا یہ نیٹورک ایک خاص اور بہت پیچیدہ ‘ایلگوردھم’ یا ‘سورس کوڈ’ کو حل کرنے سے وجود میں آتا ہے، اور اسے حل کرنے کی کوشش دنیا میں بيک وقت بہت سے لوگ (جنہیں مائنرز کہتے ہیں) مسلسل کرتے رهتے ہیں، اور اس کوشش کو ‘مائننگ’ کہتے ہیں۔
ہم بٹکوئین تین طرح سے حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلا اور آسان طریقہ تو یہ ہے کہ ہم حقیقی زر جیسے ڈالرز، پاؤنڈز یا یوروز دے کر ایسے لوگوں سے بٹکوئین لے لیں جو وہ خاص ‘ایلگوردھم’ حل کر کے بٹکوئین حاصل کرنے میں كامیاب ہوۓ ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی اشیاو خدمات ایسے لوگوں کو بیچيں جو بٹکوئین کے عوض خریدنا چاھتے ہوں۔ تیسرا اور سب سے مشکل طریقہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں شامل ہوا جاۓ جو ہر وقت اپنے بہت طاقتور کمپیوٹرز پر وہ ‘ایلگوردھم’ حل کرنے میں مصروف ہیں۔ عام طور پر یہ کمپیوٹرز اور ڈیٹا سینٹرز بہت زیادہ فاسٹ اور جدید ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تمام دنیا میں یہ ‘ایلگوردھم’ او سطاً ہر دس منٹ میں ایک بار حل ہوتا ہے اور حل کرنے والے کو صرف 12.5 بٹکوئین ملتے ہیں۔ یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے پرانے زمانے میں لوگ مصنوعی طور پر سونا بنانے میں اپنی تمام عمر لگا دیتے تھے مگر سونا نہیں بنتا تھا۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ بہت زیادہ وسائل جدید کمپیوٹرز اور بجلی پر لگا دیں مگر ‘ایلگوردھم’ ایک بار بھی حل نہ کر سکیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت کم وسائل خرچ کر کے بہت سے بٹکوئین جیت لیں۔ بی بی سی کی ایک ڈوکیومنٹری کے مطابق اس ‘ایلگوردھم’ کو لوگوں نے 2009ء سے حل کرنا شروع کیا ہے اور شاید 2140ء تک ہی مکمل طور پر حل ہو پاۓ، کیوں کہ اسکا حل ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس طریقہ سے ساری دنیا کے مائینرز 2140ء تک زیادہ سے زیادہ21 ملين بٹکوئین ہی بنا پائيں گے۔
یہاں قابل ذکر اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک كرپٹو کرنسی جیسے بٹکوئین وغیرہ کیوں اتنی اہمیت کی حامل ہے؟ کیا یہ واقعی مستقبل کی کرنسی ہے؟ اور پاکستان کی افرادی قوت اور نوجوان طالب علموں نے مستقبل کے اس گولڈ یا کرنسی کی ‘مائننگ ‘ کا ابھی تک کیوں نہیں سوچا؟ مزید یہ کہ پاکستان میں اس کے کاروبار کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے الگ کالم درکار ہے۔
Published also at HumSub (https://www.humsub.com.pk/398372/dr-muhammad-ayyoub-6/), dated 10.06.2021.