کیا کیش یعنی نوٹوں کی حکمرانی اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکےگی؟ کیا کورونا وائرس کیش کی گرتی ہوئی دیوار کو بھی آخری دھکا دینے میں کامیاب ہو جائیگا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو اسوقت ماہرين اقتصادیات و زر کے ذہنوں میں مسلسل گردش کر رہا ہے۔
زر کی دریافت سے آج تک جہاں اس نے مختلف اشکال بدلی ہیں تو انسان کو ہمیشہ سہولت ہی فراہم کی ہے۔ مگر معروف جریدے “بزنس ویک” نے 1975 میں لکھا تھا کہ الیکٹرانک پیمنٹس کا طریقہ اور نظام بہت جلد روایتی کرنسی اور ادائیگیوں کے نظام کی جگہ لے ليگا- خاص طور پر انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد سے ماہرين کی جانب سے اس پیشين گوئی میں شدت آ گئی کہ زر کی موجودہ شکل اب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گی اور دنیا کی معیشتیں اب کیش کے بغیر ہی کام کریں گی یعنی کیش۔لیس یا کیش۔فری ہوکر ڈیجیٹل کرنسی یا ای۔منی پر منتقل ہو جائیں گی اور اشیا و خدمات کا لین دین روایتی کیش کی بجاۓ انٹرنیٹ کی کرنسی میں ہوا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کرپٹو کرنسییز مثلاً بٹکوئین وغیرہ دنیا میں مقبول ضرور ہوئیں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر 2020 سے پہلےدنیا کو کیش۔فری بنانے کے تصور کی تکمیل ایک خواب ہی محسوس ہوئی ہے۔
اس نقطہ نظر کے حق میں ماہرین یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ ای-منی کے استعمال میں چند مسائل ہیں تو ایسا اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہو گا اور کیش کی موت اتنی جلدی واقع نہیں ہو سکے گی- مثال کے طور پر ہر دوکان یا سٹور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی فراہمی پر بہت اخراجات آئیں گے اور صارفين کے ڈیٹا کی چوری، پرائیویسی کا نقصان اور آن لائن فراڈ کے امكانات بہت زیادہ ہو جائيں گے۔ اس کے بر عکس کیش فری سوسائٹی میں ڈیجیٹل پیمنٹس کے بہت سے فائدے ہیں۔ مثال کے طور پر صارفین کو ادائیگی میں سہولت ہوتی ہے، آن لائن خریدوفروخت میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ دکانداروں اور ریٹیلرز کو کیش کو سنبهالنے اور منتقل کرنے کے اخراجات میں کمی سے فائدہ ہو گا اور حکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں بہت آسانی ہو گی
جیسا کہ 2020 کا سورج دنیا کی معیشتوں کے لیے زیادہ اچھی خبر لے کر طلوع نہیں ہوا اور گلوبل ولیج کے تصور کو بھی کافی نقصان ہوا۔ ملکوں اور انسانوں کے زمینی رابطوں میں جہاں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے تو انٹرنیٹ کا استعمال تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیش فری اکانومی کا تصور بھی تکمیل کی طرف مراحل طے کرتا نظر آ رہا ہے اور پچھلے ایک سال میں ڈیجیٹل پیمنٹس میں تقریباً 14% اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق ستمبر 2020 کے ایک سرو ے کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ دنیا کے تقریباً 64% لوگ اپنے ملکوں کو آنے والے سالوں میں کیش فری دیکھنا چاھتے ہیں اور تقریباً 44% لوگوں کو قوی امید ہے کہ ایسا 2030 تک ہی ممکن ہو جاۓ گا۔ دنیا کو کیش فری بنانے کے سفر میں یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں، سويڈن دنیا کی پہلی کیش فری سوسائٹی بننے کے لیے تیار ہے جو 2023 تک مکمل طور پر ڈیجیٹل پیمنٹس پر منتقل ہو جائیگی۔ مگر ایشیائی ممالک میں یہ رفتار قدرے سست ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا کے 1.7 ارب بالغ افراد ایسے ہیں جن کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں اور جو موبائل ایپلیکیشن وغیرہ سے زر کا لین دین نہیں کرتے۔ ان میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا تعلق سات ملکوں یعنی بنگلہ دیش، چین، بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، نائیجیریا اور پاکستان سے ہے۔ یہ 1.7 ارب افراد وہ ہیں جن کا تعلق عمومی طور پر سوسائٹی کے نچلے طبقے سے ہے اور یہ لوگ عام طور پر غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں اور کم آمدنی والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہرین کو خدشہ لاحق ہے کہ جیسا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل پیمنٹس پر منتقل ہو کر تیزی سے کیش فری ہو رہی ہے تو یہی وہ طبقہ ہے جو ای-کامرس اور آن لائن ادائیگیوں کے نظام کے فوائد اٹھانے سے محروم رہ جائیگا۔ اسلئے ان سات ملکوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ اپنے عوام کو جلد از جلد بینکنگ اور ڈیجیٹل پیمنٹس کی طرف لے کر آئیں۔ اس طرح ناصرف ٹیکسز کے نیٹ ورک میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ طبقہ دنیا کے کیش فری ہونے اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کے ثمرات بھی سمیٹ سکے گا۔
پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ کورونا وائرس نے چند ایک کے سوا دنیا کی تقریباً ہرصنعت کو نقصان پہنچایا ہے تو ماہرین اقتصادیات و زر کے اس دیرينہ تصور کی تکمیل کی جانب کچھ مدد بھی فراہم کی ہے جس کے مطابق دنیا کی معیشت اب بہت جلد کیش فری ہو جائیگی اور لگتا یہی ہے کہ اس وبا کی وجہ سے بہت سے انسانوں کے ساتھ کیش کی بھی موت واقع ہو جائیگی